حضرت علا ؤالدین علی احمدصابر
رحمتہ اللہ علیہ
حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ گیارہ ربیع الاول ۵۹۲ ہجری کو میں افغانستان کے شہر ہرات میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام عبد اللہ تھا جو بڑے متقی ،صاحب دل اور با فیض بزرگ تھے آپ کی والدہ ماجدہ بی بی ہاجرہ حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی سگی بہن تھی۔ آپ کے والد کے انتقال کے بعد آپ کی والدہ آپ کو لے کر ہرات سے اجودھن (پاکپتن) میں حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ کو با با فرید کے سپرد کرتے ہوئے فرما یا کہ اب اس بچے کی پرورش و تربیت آپ کریں ۔
حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ نے بچے کی صورت دیکھتے ہی فرمایا یہ بچہ بڑا ہو کر اولیاء وقت میں سے ہو گا اور ایک دنیا اس سے فیض یاب ہو گی با با فرید نے خود آپ کو تعلیم دینا شروع کی آپ کی ذہانت کا کمال تھا کہ آپ نے تین سال کے اندر ہی تمام علوم ظاہری حاصل کر لئے ، تین برس کے بعدآپ کی والدہ بھائی سے یہ کہہ کر ہرات واپس چلی گئیں کہ اب بھانجے کو علوم باطنی میں بھی کامل کر دیجئے اور کوئی تکلیف نہ ہو نے دیجئے گا حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کو بہن سے بہت محبت تھی حضرت با با فرید رحمتہ اللہ علیہ نے بہن کے سامنے ہی بھانجے کومرید کر کے تقسیم لنگر کا کام حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ کے سپرد کر دیا ۔
حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ کی عمر گو کہ کم تھی مگر پھر بھی آپ نے یہ اہم کام نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیا ایک عرصے کے بعد جب آپ کی والدہ ماجدہ نے واپس آ کر آپ کو دیکھا تو آنکھوں سے آنسو نکل پڑے آپ سوکھ کر کانٹا ہو گئے تھے۔ بھائی سے جاکر شکوہ کیا تو حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تم خود گواہ ہو کہ تمہارے سامنے ہی میں نے تقسیم لنگر کی خدمت اس کے سپرد کی تھی۔
حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا آپ نے تقسیم لنگر ہی کا مجھے حکم دیا تھا یہ کب فرمایا تھا کہ اس میں سے کھا بھی لینا یہ جواب سن کر ماموں پر وجد کی کیفیت طاری ہو گئی اور آپ نے شفقت سے فرمایا '' علائوالدین صابر است '' اور اسی وقت سینے سے لگا کر خدا جانے کیا کیا عطا فر ما دیا اس کے علاوہ بھی آپ کے مجاہدے اور کرامتیں اس درجہ شدید صبر آزما تھیں کہ انہیں سن کر حیرت ہوتی ہے کثرت مجاہدہ اور فاقوں سے آپ کی طبیعت میں بہت ہی قہر و جلال پیدا کر دیا تھا۔
ایک دن حضرت علاؤالدین علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ نے حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کوآپ کی بیٹی سے علائوالدین صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ کی شادی کی بات کی توبا با فرید نے فرمایا کہ علائوالدین صابر کلیری کو شادی اور بیوی کا ہوش نہیں ہے لیکن بہن نہیں مانیں اور بھائی سے رشتے پر اصرار کرتی رہیں آخر با با فرید نے بہن کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اپنی بیٹی خدیجہ بیگم کے ساتھ حضرت علاؤ الدین علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ کا نکاح پڑھا دیا آپ نے دلہن کو اپنے حجرہ میں دیکھا تودریافت کیاتم کون ہو۔
خدیجہ بیگم نے جواب دیا آپ کی بیوی ہوں آپ نے فرمایا جب ہم خدا کے ہو چکے تو پھر ہمیں غیر کی کیا ضرورت رہی اور جب آپ نے نظر ڈالی تو دلہن کے جسم میں آگ لگ گئی صبح کو ماں آئی تو بہو کو راکھ دیکھ کر غصے میں کہا کہ میں تمھارے ماموں کو کیا جواب دونگی انہیں بھی فورا بخار آگیا اور کچھ روز بعد وصال فرماگئیں۔
اس کے بعد آپ جو حجرے میں داخل ہوئے تو پورے نو سال اندر ہی رہے اور باہر نہیں نکلے نہ کچھ کھا یا پیا نو برس کے بعد حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ جب حضرت مخدوم کے حجرے میں صبح کے وقت گئے تو دیکھا کہ آپ استغراق کے عالم میں بے حس و حرکت بیٹھے ہیں آپ کے کان میں سات مرتبہ الا اللہ بلندآواز سے کہا توہوش میں آ گئے اور مرشد کو سامنے دیکھ کر قدم چومے اور آداب بجا لائے حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو با ہر لا کر خرقہ خلافت عطا کیا اور سند لکھی اور اسم اعظم کی تعلیم دی۔
حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو دہلی کے لئے متعین کیا اور فر ما یا پہلے ہانسی جا کر اپنے بھائی جمال سے اس پر مہر ثبت کرا لینا جب آپ سند لے کر ہانسی پہنچے تو حضرت شیخ جمال الدین ہانسوی نے نہایت محبت اور احترام سے آپ کی مہمان نوازی فرمائی اور پیر روشن ضمیر با با فرید الدین مسعودگنج شکر کے حالات صحت اور معلومات کے متعلق گفتگو کرتے رہے اسی دوران مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا۔ نماز سے فارغ ہو نے کے بعد حضرت مخدوم صابر کلیری نے دہلی کی خلافت کے لئے حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کی سند خلافت حضرت جمال الدین ہانسوی کو پیش کی اور فر ما یا کہ آپ اس پر مہر ثبت کر دیجئے اسی وقت چراغ گل ہو گیا تو جمال الدین ہانسوی نے فر ما یا بھائی چراغ گل ہو گیا ہے۔ صبح مہر ثبت کردونگا لیکن آپ نے فر ما یا نہیں دوسرا چراغ منگوا کر اسی وقت مہر لگا دیجئے جمال الدین ہانسوی نے دوسرا چراغ منگوایا ابھی آپ مہر لگوانا ہی چاہتے تھے کہ دوسرا چراغ بھی گل ہو گیا اب آپ صبح مہر لگوا لینا۔
اسی وقت حضرت علاؤالدین صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی انگلی پر دم کیا تو انگلی روشن ہو گئی آپ نے جمال الدین ہانسوی رحمتہ اللہ علیہ سے فرمایا اب آپ مہر ثبت کر دیجئے حضرت جمال الدین ہانسوی نے یہ رنگ دیکھاتو حضرت علاؤالدین صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ کی سند چاک کر دی اور فرما یا تمہارے دم مارنے کی تاب دہلی میں کہاں تم تو ایک دم مارتے ہی دہلی کو جلا کر خاک کر دو گے جواباً حضرت مخدوم علاؤالدین صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ نے حالت جلال میں فر ما یا کہ آپ نے میری سند خلافت چاک کی ہے میں نے آپ کا سلسلہ چاک کردیا اور اجودھن جا کر حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کو ساری تفصیل گوش گزار کی۔
حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ نے دوسری سند لکھ کر فر ما یا میں کلیر شریف کاعلاقہ تمہارے سپرد کر تا ہوں وہاں تکبرو غرور اور گمراہی کا ایک طوفان عظیم بر پا ہے وہاں پہنچ کر خلق خدا کو ہدایت کرو اور اسلام کو تقویت پہنچائو کلیر اس عہد میں عظیم الشان با رونق شہر تھا امیر کلیر نے آپ کو شاہ ولایت تسلیم کر لیا مگر قاضی شہر نے ور غلایا کہ یہ جادو گرہے آپ نے سن کر فر ما یا اس طرح آج رسول ۖ کی سنت اس فقیر عاصی کے حق میں تازہ ہو ئی ہے یہ فر ما کر وہاں سے واپس چلے آئے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت با با فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کو خط ارسال کیا یہاں تو میں اطمینان قلب نماز اول کے ثواب سے بھی محروم ہو گیا ہوں حضرت با با فرید الدین رحمتہ اللہ علیہ نے صبر کی تلقین فرمائی لیکن علماء و امراء کے غرور و تکبر کاوہی حال رہا آپ نے مرشدحق کو خط بھیجا حضرت با با فرید رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو لکھا کہ شہر کلیر تمہاری بکری ہے تمھیں اختیار ہے خواہ اس کا دودھ پیو یا اس کا گوشت کھائو یہ جواب پا کر آپ جمعہ کے روز جامع مسجد میں گئے امراء شہر نے آپ کو مسجد سے نکال دیا آپ نے غضب ناک ہو کر فرما یا ظالمو تم اللہ کے گھر میں بھی امتیازات پیدا کرتے ہو اور یہاں بھی بندہ بن کر نہیں آتے ہو لیکن کسی نے پرواہ نہیں کی آخر امام نے جب خطبہ ختم کیا تو آپ نے جلا ل میں آ کر مسجد کو مخاطب کیا اور فر ما یا کہ اب تو بھی سجدہ کر لے یہ فر ماتے ہی عظیم الشان مسجد فورا ہی زمین بوس ہو گئی اہل کلیر گھبرائے ہوئے آپ کے پاس آئے تو آپ نے فر ما یا میں تو اللہ سے ویرانی کلیر کی دعا مانگ چکا ہوں اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔
بہت سے افراد تو جامع مسجد میں دب کر ہلاک ہو گئے اس کے بعد شہر میں طاعون پھیل گیا جس نے تمام شہر کو ویران کر دیا ہزاروں مر گئے اور جو بچے وہ جنگلوں اور پہاڑوں پر بھاگ گئے آپ نور العارفین حضرت با با فرید مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے جانشین تھے اور صابری سلسلہ آپ ہی سے جاری ہے حضرت شیخ علاؤالدین علی احمد صابر رحمتہ اللہ علیہ کو سماع کا بہت ذوق تھا اور وہ اکثرا سے سنا کر تے تھے یہاں تک کہ آپ کاوصال بھی عین حالت سماع ہی میں ہوا آپ میں جذبہ الہی حد سے زیادہ تھا زبان مبارک سے جو بھی نکل جاتا وہ پورا ہو جاتا دنیا اور دنیا والوں سے انہیں کوئی غرض نہ تھی ان سے وہ دور بھاگتے تھے اور ہمیشہ ذکر الہی میں مشغول رہتے تھے۔
ایک مرتبہ حضرت شیخ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کے مریدوں میں سے ایک شخص حضرت علائوالدین علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بو لا کہ آپ نے حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی رحمتہ اللہ علیہ کے علاوہ کسی کو اپنا مرید اور خلیفہ نہیں بنا یا اور میرے پیر و مرشد حضرت شیخ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے آسمان پر ستاروں کی تعداد سے بھی زیادہ اپنے مرید بنائے ہیں آپ نے جواب دیا کہ میرا شمس رحمتہ اللہ علیہ ہی کافی ہے جو اللہ کے فضل سے سارے ستاروں پر غالب ہے وہ شخص خاموش رہا اور دہلی آ کر اس نے حضرت شیخ المشائخ سے یہ واقعہ بیان کیاحضرت شیخ المشائخ نے فرمایا کہ تم نے حضرت کو کیوں رنجیدہ کیا آئندہ ایسی حرکت نہیں ہو نی چاہئے بے شک انہوں نے جو کچھ فرمایا صحیح ہے وہ مقرب بارگاہ ربانی ہیں۔
حضرت علائوالدین علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ ۱۳ ربیع الاول ۶۶۴ ہجری کوعین حالت سماع اور وجد میں اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔آپ کی آخری قیام گاہ کلیر شریف میں ہے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار اقدس آپ رحمتہ اللہ علیہ کی جلالت کی وجہ سے تقربیاً دو سو سال سے زائد عرصہ تک زائرین کی نگاہوں سے پوشیدہ رہا۔تذکرۃ ا لجلیل میں ہے کہ جو کوئی بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کی طرف جاتا اس کو بجلی جلا دیتی یا کوئی سانپ کاٹ لیتا۔اس لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار اقدس کے جائے وقوع سے دور دور تک آبادی قائم نہ ہو سکی۔
حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ ایک دن حسب معمول اپنے دادا مرشد حضرت شیخ عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر جھاڑو دینے میں مشغول تھے کہ آواز آئی کہ ہمارے مزار پر بھی جھاڑو دے دیا کرو!۔ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ یہ نہ سمجھ سکے کہ کس بزرگ کی آواز ہے۔چنانچہ آپ نے مزار شریف پر بیٹھ کر مراقبہ شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہ آواز حضرت صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ کی ہے۔
اس واقعہ کے بعد حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ اپنے مردوں کے ہمراہ مزار اقدس پر پہنچے ۔وہاں قرآن خوانی و فاتحہ کروائی اور حلوہ شریں کے توشہ پر حضورﷺ کی روح کو ثواب پہچا کر حاضرین میں تقسیم کیا۔ حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ نے تین روز وہاں قیام کیا اور مزار اقدس کی حد بندی کی۔بانس کے ستون بنا کر لکڑیوں کی چھت سےمزار اقدس پر سایہ کیا۔اس کے بعد حضرت علائوالدین علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ کی جلالت آپ کی دعا سے ختم ہو گئی اور لوگ آپ کے مزار اقدس کی زیارت کے لیے آنے جانے لگے۔
حضرت علائوالدین علی احمد صابر کلیری رحمتہ اللہ علیہ کا سالانہ عرس مبارک اپنی دیرینہ روایات کو دامن میں سمیٹے ۱۳ ربیع الاول سے کلیر شریف میں شروع ہو جاتا ہے محفل سماع میں قوال عارفانہ کلام پیش کرتے ہیں جس میں عقیدت مند گلہائے عقیدت پیش کر کے رو حانی کیف و سرور کے ساتھ دنیا و آخرت کی سر بلندی و سر فرازی کی دولت سے ما لا مال ہو کر واپس جا تے ہیں یہ اللہ کے جانثاروں کی تاریخ ہے جو انسانی نظروں سے روپوش ہو نے کے باوجود صدیوں سے ہزاروں انجمنوں، لاکھوں مجلسوں اورکروڑوں دلوں میں آج بھی زندہ ہیں اتنا عرصہ گزرنے کے با وجود آپ کا مزار پاک کلیر شریف (انڈیا ) میں عقیدت مندوں کے لئے مرجع خلائق ہے۔